تحریر/ مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی، مدیر ساغر علم، دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی | گردش لیل و نہار نے نہ جانے کیا کیا دکھایا!، ابھی کل کی سی بات ہے کہ ٣جنوری ۲۰۲۰ء میں ایک علی سے ایک مالک اشتر بچھڑا تھا اور اب ٣ جنوری ۲۰۲۱ء آگیا یعنی شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی مہندس کی برسی کا روز آگیا!۔جس طرح امام علی نے مالک اشتر کی شہادت پر اپنی قوت پشت میں کمزوری محسوس کی تھی اسی طرح رہبر معظم'' آیة اللہ سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ'' نے احساس ضعف و نقاہت کیا۔ قاسم سلیمانی کی شہادت کے موقع پر رہبرمعظم کی ایک کلپ وائرل ہوئی جس میں آپ نے شہید قاسم سلیمانی کو مالک اشتر سے تشبیہ دی تھی، یہ کلپ قاسم سلیمانی کی زندگی میں آمادہ ہوئی تھی، رہبر معظم نے ایک میٹنگ میں قاسم سلیمانی کی شان میں فرمایا: ''ایشان مثل مالک اشتر می ماند'' یعنی قاسم سلیمانی میرے لئے ایسے ہی ہیں جیسے مولائے کائنات کے لئے مالک اشتر تھے۔ یہی سبب ہے کہ امریکی چھاونی پر حملہ کے بعد رہبر معظم نے فرمایا: ''یہ تو صرف ایک طمانچہ ہے، اصلی انتقام ابھی باقی ہے''۔ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد رہبر معظم کی متعدد تقاریر نظر نواز ہوئیں اور ہمہ تن گوش ہوکر سماعت کیں تو احساس ہوا کہ مالک اشتر کی جدائی کے بعد علی اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہے ہیں!۔
قاسم سلیمانی صرف ایک کمانڈر ہی نہیں بلکہ بے خوف و ہراس میدان جنگ میں اترجانے والے مالک اشتر اور حکم امام پر دہکتے ہوئے تنور میں بے چون و چرا کود جانے والے ہارون مکی کی منزل پر فائز تھے۔ قاسم سلیمانی ایسے شیر نر تھے کہ جب تک آپ حیات تھے تو کسی دشمن میں اتنی جرأت نہ ہوسکی کہ ملک ایران کو ترچھی نگاہوں سے دیکھ سکے۔ ایسا بھی سننے میں آیا کہ آپ بغیر اسلحہ عراق میں گھومتے ہوئے صدام کی قبر کے پاس والے ہوٹل میں بے خوف و خطر چائے نوش فرماکر آئے تھے اور اسلحوں سے لیث ہونے کے باوجود دشمن میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ آنکھ اٹھاکر دیکھ سکے!۔
قاسم سلیمانی کی شجاعت و بہادری اس منزل پر تھی کہ اگر انہیں شیر بیشۂ شجاعت سے تعبیر کیا جائے تو شاید غلط نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ دشمن میں یہ ہمت نہ ہوسکی کہ میدان جنگ میں شہید کرسکے یا سامنے آکر مقابلہ کرسکے، چونکہ دشمن میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ مردانہ وار حملہ کرسکے لہٰذا زنانہ راستہ اختیار کیا اور پشت سے وار کیا۔ جی ہاں! بمباری کو پشت سے وار کرنا ہی کہا جائے گا کیونکہ اصلی جنگ وہی ہوتی ہے جو آمنے سامنے کی ہو۔
جب دشمن نے یہ محسوس کیا کہ ''اشتر'' میدان میں بکھرے ہوئے ہمارے تمام رائی کے دانوں کو ایک ایک کرکے کھائے جارہا ہے تو قاسم سلیمانی کا وجود دشمن کی آنکھ میں کانٹے کی مانند چبھنے لگااور شیر نر پر بزدلانہ حملہ کرڈالا۔
دشمن کا اصلی نشانہ ملک کے وہی کمانڈر ہوتے ہیں جو نڈر اور بے خوف میدان جنگ میں اترتے ہیں اور انہیں اپنی جان سے زیادہ اپنا ملک عزیزہوتا ہے۔
اسی سوچ کے پیش نظر دشمن نے ایران کے ایک بے خوف اور نڈر سورما کو شہید کیا اور اپنے زعم ناقص کے مطابق اس نے ایران کو شکست دے دی تھی لیکن عراق میں واقع امریکی فوجی چھاؤنی پر ایران کے ایک طمانچے نے امریکہ میں واقع ایوان ستم میں زلزلے پیدا کردیئے۔
قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ان کا وصیت نامہ شائع ہوا تو اس میں دیکھنے کو ملا کہ آپ نے خداوندعالم کی حمدوثنا اورمحمدؐوآل محمدؐ پر صلوات و سلام کے بعد فرمایا: ''خداوندعالم! تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ تونے مجھے امام خمینیؒ کی رکاب میں قرار دیااور امام خمینیؒ کے بعد ان کے جانشین رہبر معظم حضرت آیة اللہ خامنہ ای دامت برکاتہ کی زیر سرپرستی زندگی گزار رہا ہوں، پروردگار! ہمارے سروں پر امام خامنہ ای کا سایہ ہمیشہ قائم رکھنا''۔
شہید کے ان جملوں سے انقلاب کی بابت مہر و الفت اور اپنے ملک کی نسبت محبت و چاہت بطور واضح، آشکار ہورہی ہے۔ شہید نے ان جملوں سے یہ سمجھایا ہے کہ امام خمینیؒ کی رکاب میں رہنا خوش بختی کی علامت اور آیة اللہ خامنہ ای کے ہمراہ رہنا باعث سعادت ہے۔
شہید کی وصیتوں سے شہادت کی خواہش جگہ جگہ پر نمایاں ہے، انہوں نے اپنی وصیت میں شہداء کی تعریف و تمجیدبھی کی، صف شہادت میں شہادت کے منتظر لوگوں کو ترغیب بھی دلائی اور شہادت کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا۔
آپ کی شہادت کے بعد ایک کلپ وائرل ہوئی جس میں ایک داستان تھی، داستان کچھ اس طرح تھی کہ آپ زیارت امام رضا علیہ السلام کے لئے مشہد مقدس تشریف لے گئے، آپ زیارت کرکے حرم سے باہر نکلے تو ایک بچی ملی، اس نے شہید کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی دیکھی، اسے بہت پسند آئی، اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ آغا کیا یہ انگوٹھی مجھے ہدیہ میں مل سکتی ہے؟ شہید کے لبوں پر مسکراہٹ آئی اور فرمایا: کیوں نہیں ، یہ انگوٹھی میں تمہیں ضرور تحفہ میں دوں گا لیکن میری ایک شرط ہے، بچی نے پوچھا: آغا! شرط کیا ہے؟ شہید نے فرمایا: جب بھی تم مولا کے روضہ پر زیارت کے لئے آؤ تو میری شہادت کی دعا کرنا، بچی تو بچی تھی نہ جانے کس رو میں رہی ہوگی!، اس نے انگوٹھی لے لی؛ لیکن اس نے جب یہ سوچا کہ شہید نے اس انگوٹھی کے بدلہ میں مجھ سے کیا طلب کیا ہے تو اس کے بدن میں لرزہ پیدا ہوگیا کیونکہ وہ بھی ایک شہید کی بیٹی تھی، اس کا باپ راہ خدا میں شہید ہوچکا تھا، قاسم سلیمانی اس بچی کو باپ کی طرح پیار کرتے تھے؛ جب اس بچی نے یہ سوچا تو انگوٹھی واپس کرنے کا ارادہ کیا کہ میں آپ کی شہادت کی دعا کیسے کرپاؤں گی ؟ میرے بابا کے بعد آپ ہی تو میرے سرپرست ہیں! یہ سوچ کر بچی نے نظریں اٹھائیں تو قاسم سلیمانی نظروں سے غائب تھے ِادھر ُادھر دیکھا تو قاسم سلیمانی گاڑی میں بیٹھے ہوئے بچی کو خدا حافظ کہہ رہے تھے، بچی دوڑی کہ انگوٹھی واپس کردے لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی اور قاسم سلیمانی کی گاڑی کافی آگے بڑھ چکی تھی۔
اس داستان سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قاسم سلیمانی کے دل میں شہادت کی امنگ کا اندازہ، عام انسان نہیں لگاسکتا بلکہ وہی لوگ اندازہ کرسکتے ہیں جن کا تعلق شہداء کے خانوادہ سے ہو یہی سبب ہے کہ جس بچی کو قاسم سلیمانی نے اپنی انگوٹھی تحفہ میں دی تھی وہ آپ کے جذبات کو اچھی طرح سمجھ پارہی تھی۔
قاسم سلیمانی کے نام میں کتنی مناسبتیں پائی جاتی ہیں! آپ کا نام ''قاسم''، ولدیت'' حسن'' یعنی آپ ''قاسم ابن حسن'' تھے۔ آپ کی ذات میں اس نام کا اتنا زیادہ اثر آیا کہ جس طرح میدان کربلا میں قاسم ابن حسن کا جنازہ پاش پاش ہوا تھا اسی طرح آپ کا جنازہ بھی پاش پاش ہوگیا۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ قاسم سلیمانی جناب زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ کی حفاظت فرماتے تھے یعنی آپ کا شمار محافظین حرم سیدہ زینب میں ہوتا تھا اور آپ محافظتی دستہ کے سردار تھے، ظاہر سی بات ہے کہ آپ کو اس کار خیر کی جزا بھی ملنی چاہئے تھی لہٰذا جب دشمن نے حملہ کیا تو تمام تصاویر شہادت نے دنیا پر واضح کردیا کہ عباس کی مانند زینب کے روضہ کی حفاظت کرنے والے قاسم سلیمانی کا ہاتھ عباس کی مانند کٹ گیا۔
قاسم سلیمانی جیسا کمانڈر برسوں میں ایک پیدا ہوتا ہے۔ قاسم کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا البتہ ان کے افکار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنا ممکن ہے۔ ہمارے زمانہ کے امام کو قاسم سلیمانی جیسے ہزاروں مالک اشتر درکار ہیں تاکہ دشمن کی جانب سے میدان میں بکھرے ہوئے بے شمار رائی کے دانوں کو چن سکیں۔ ہمارے درمیان کتنے لوگ ہیں جو مالک اشترصفت کے مالک ہوں! یقینا نہیں ہیں، بہت تلاش کے بعد شاید کچھ مل پائیں!۔ ہمیں مالک اشتر اور ہارون مکی کے اوصاف کا حامل ہونا ہے تاکہ اپنے امام کی مدد کرسکیں۔
آج قاسم سلیمانی ہمارے درمیان بظاہر موجود نہیں ہیں لیکن ان کے افکار، ان کے جذبات اور ان کے احساسات بچہ بچہ کے دل و دماغ پر نقش ہوگئے ہیں اور یہ نقوش تا قیام قیامت زندہ وپائندہ رہیں گے کیونکہ قاسم سلیمانی کے اندر اخلاص کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، اگر زمانہ بھلانا بھی چاہے تو ان کا اخلاص آڑے آئے گا اور اپنے تواپنے، دشمن کے ذہن سے بھی آپ کا وجود محو نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا کا وعدہ ہے: جو میری راہ پر چلے گا میں اسے کبھی نہیں مٹنے دوں گا۔ دشمن نے مٹانا چاہا لیکن قاسم سلیمانی کے اخلاص نے ثابت کردیا کہ ہم کربلائی ہیں، نہ تو کربلا کبھی مٹ پائی نہ کربلا والوں کا ذکر مٹ پایا اور نہ ہمارے ذکر کو مٹا پاؤگے کیونکہ ہم دعائے زہرا ہیںاور راہِ زینب پر گامزن ہیں۔ پروردگارعالم! ہمیں اسی راہ حق پر گامزن رکھ اور ہمارے دلوں میں جذبۂ شہادت کو روزبروز اضافہ فرما۔ (آمین یا رب العالمین) ۔ ''والسلام علی من اتبع الہدیٰ''